HAZRAT ASMA (R.A)
Unit 4, HAZRAT ASMA (R.A)
Paragraph 1
The Holy Prophet
SAW and his close companion Hazrat Abu Bakr Siddique (R.A) migrated from Makkah
to MADINAH IN THE YEAR 622 A.D.
پاک پیغمبر ﷺ اور ان کے قریبی رفیق حضرت ابوبکر صدیق
نے 622 عیسوی میں مکہ سے مدینہ ہجرت
فرمائی
When the chiefs
of varios tribes of Makkah came to know about the migration of The Holy Prophet
SAW and his close companion Hazrat Abu Bakr Siddique (R.A), they got furious.
جب
مکہ کے مختلف سرداروں کو حضور ﷺ اور ان کے قریبی ساتھی حضرت ابوبکرصدیق کی ہجرت کا علم ہوا تو وہ غضب ناک ہوئے۔
The chiefs were
determined more than ever to find them out.
وہ سردار انھیں ڈھونڈنے کے لیے پہلے سے بھی زیادہ پر عزم
ہو گئے۔
They offered huge rewards and bounties for their capture , dead or alive.
انہوں نے ان کی زندہ یا مردہ گرفتاری پر بھاری انعامات اور
نذرانوں کی پیش کش کی۔
Paragraph 2
The preparation for this journey was made at the house of Hazrat Abu Bakar
Siddique R.A
اس سفر کی تیاری کا آغاز حضرت ابوبکر صدیق کے گھر سے ہوا
Hazrat Asma R.A rendered her useful services in this regard.
حضرت اسما نے اس ضمن میں بہت مفید خدمات سرانجام دیں۔
She prepared food for this journey.
انہوں نے اس سفر کے لئے خوراک
تیار کی۔
She tied the food onto the camel’s back with her own belt as nothing else
could be found.
انہوں نے اپنی کمر بند سے خوراک
کو اونٹ کی پشت سے باندھ دیا کیونکہ اور
کچھ نہ ملا۔
For this service she was given the title of Zatun Nataqin by the Holy
Prophet SAW.
اس خدمت کے باعث حضور اکرم ﷺ نے
انھیں ذات ناطقین کے لقب سے نوازا۔
Paragraph 3
During the perilous journey, it was very difficult for anyone to supply
food to the Prophet Muhammad SAW .
اس پر خطر سفر کے دوران رسول پاک ﷺ کو خوراک پہنچانا کسی کے
لئے بھی خاصا دشوار تھا ۔
It was so delicate that the slightest mistake could have endangered the
life of the Holy Prophet SAW.
یہ اتنا نازک (کام ) تھا کہ جہاں ذرا سی غلطی بھی حضور
اکرم ﷺ کی زندگی کو خطرے میں ڈال سکتی تھی
This grant task was nicely undertaken by Hazrat Asma R.A the daughter of Hazrat
Abu Bakar R.A
حضرت ابوبکر صدیق کی بیٹی حضرت اسما نے اس بڑے کام کو بہ
خوبی سر انجام دیا۔
Every night with the pack of food she would quietly venture towards the
rugged mountains in which lay the cave of Thawr.
خوراک کی گٹھڑی کے ساتھ چپکے سے ان ناہموار پہاڑیوں کی طرف خطرہ
مول لیتی جہاں غار ثور واقع ہے۔
She took care of the minute detail in accomplishing the task.
اس کام کو سرانجام دینے میں وہ چھوٹی چھوٹی باتوں کا خیال
رکھتیں
How difficult it must have been for her to cross the rocky path at night,
with the constant fear of being detected.
دیکھ لیے جانے کے مستقل خوف کے ساتھ ' رات کو پتھریلی راہ
پر سے گزرنا ان کے لیے کتنا مشکل رہا ہو گا۔
Paragraph 4
On the night of migration, a tribal chief of disbelievers, Abu Jehl, in a
fit of furry headed towards Hazrat Abu Bakar Siddique’s home.
ہجرت کی شب ' کافروں کا ایک قبائلی سردار ' ابوجہل ' غصے
میں پاگل ہو کر حضرت ابوبکر کے گھر گیا
He began knocking at the door violently.
اس نے زور زور
سے دروازہ بجانا شروع کر دیا۔
Addressing Hazrat Asma R.A he demanded , “Where is your father?”
حضرت اسما کو پکارتے ہوئے پوچھا کہ تمہارا باپ کہاں ہے؟َ
She politely replied , “How would I know?”
انہوں نے شائستگی سے جواب دیا ' مجھے کیسے علم ہو سکتا ہے۔
This response shows the wisdom and courage of Hazrat Asma R.A
یہ جواب حضرت اسما کی جرات اور دانائی کو ظاہر کرتا ہے۔
She did not make a statement that could give him a clue.
انہوں نے کوئی ایسی بات نہ کی کہ اسے ذرہ سا بھی اشارہ
ملتا۔
She simply posed a counter question that infuriated Abu Jehl
انہوں نے محض الٹا سوال کر دیا جس نے ابو جہل کو اور زیادہ
غضب ناک کر دیا۔
He slapped Hazrat Asma’s face so hard that her ear ring fell off but she
remained steadfast and did not reveal the secret.
اس نے حضرت اسما کے چہرے پر ' اتنا زور سے تماچہ پارا کہ ان
کے کان کی بالی دور جا گری' مگر وہ ابو جہل کے ایسے غیظ و غضب کے سامنے ڈٹی رہیں اور راز ظاہر نہ کیا۔
Paragraph 5
Her grandfather, Hazrat Abu Quhafaa was a disbeliever at that time.
ان کے دادا حضرت ابو قھافہ اس وقت ایمان نہیں لائے تھے۔
He was very old and had become blind.
وہ بہت ضعیف تھے اور نابینا ہو چکے تھے۔
He said to her, Asma , “I think , Abu Bakar Siddique has taken all the
wealth leaving you and children empty-handed and helpless.
انہوں نے حضرت اسما سے کہا' اسما ' میرا خیال ہے کہ ابوبکر
صدیق تمہیں اور بچوں کو خالی ہا تھ اور بے یارو مددگار چھوڑ کر ساری دولت ساتھ لے گیا ہے۔
At this she instantly ran to a corner of the home,
یہ سنتے ہی وہ اپنے گھر کے ایک کونے کی طرف دوڑیں
she gathered some pebbles
انہوں نے کچھ کنکریاں اکٹھی کیں
and put them at the place where her father used to keep his money and
jewels.
اور انھیں اس جگہ رکھ دیا جہاں پر ان کے ابو اپنی رقم اور
جواہرات رکھا کرتے تھے۔
She covered it with a piece of cloth.
آپ نے ان کنکریوں کو ایک کپڑے کے ٹکڑے میں باندھا
Come grandfather, look ! He has left all this for us.
(اور کہا ) آئیئے دادا ابو ' یہ
دیکھئیے ! وہ یہ سب کچھ ہمارے لئے چھوڑ
گئے ہیں ۔
He touched the cloth and thought it was full of gold and jewels
انھوں نے کپڑے کو چھوا اور سمجھے کہ یہ سونے اور جوہرات سے
بھرا ہوا ہے۔
His concern was alleviated and he felt relieved to know that Abu Bakar
Saddique had left his wealth at home.
ان کی تشویش کم ہو گئی اور انھیں یہ جان کر تسلی ہو گئی کہ
حضرت ابو بکر صدیق اپنی تمام دولت گھر چھوڑ گیا ہے ۔
Paragraph 6
Hazrat Asma R.A was amongst the early few who accepted Islam.
حضرت اسما ان چند ان (خوش نصیب افراد ) میں سے تھیں جو اسلام لائے تھے۔
She was the daughter of Hazrat Abu Bakar Siddique and step sister of Hazrat
Ayesha Siddiqua.
آپ حضرت ابوبکر صدیق کی بیٹی اور حضرت عائشہ صدیقہ کی
سوتیلی بہن تھیں۔
She was wife of Hazrat Zubair bin Alawam and the mother of Hazrat Abdullah
bin Zubair
آپ حضرت زبیر بن العوام کی زوجہ اور حضرت عبداللہ بن زبیر
کی والدہ تھیں۔
She died at the ripe old age of about a hundred years.
آپ نے لگ بھگ 100 سال کی رسیدہ عمر میں وفات پائی۔
Hazrat Abdullah bin Zubair used to say that he had not seen anybody more
generous and open-hearted than his aunt Hazrat Ayesha and his mother.
حضرت عبداللہ بن زبیر کہا کرتے تھے ' کہ انھوں نے کبھی اپنی
خالہ حضرت عائشہ اور اپنی ماں سے بڑھ کر
کسی کو اتنا زیادہ سخی نہیں دیکھا۔
Hazrat Asma was so generous that she sold the garden she inherited after
the death of her sister, Hazrat Ayesha.
حضرت اسما اتنی
سخی تھیں کہ ' اپنی (سوتیلی ) بہن حضرت عائشہ کی وفات کے بعد جو باغ انھیں وراثت
میں ملا تھا بیچ دیا۔
She gave away all the money to the poor and the needy.
(اور ) ساری رقم
غریبوں اور محتاجوں میں تقسیم کر دی۔
Nobody ever returned empty-handed from her doorstep.
کوئی بھی آدمی کبھی بھی آپ کے در سے خالی نہیں لوٹا۔
Paragraph 7
Hazrat Asma will always be remembered for her courage, generosity and
wisdom.
حضرت اسما اپنے حوصلے ' سخاوت اور ذہانت کے باعث ہمیشہ یاد
رکھی جائیں گی۔
She had resolute faith in Allah almighty
آپ اللہ تعالی پر پختہ یقین رکھتی تھیں
Her life would always be a beacon of light for all of us.
آپ کی زندگی ہم سب کے لیے ہمیشہ مشعل راہ ر ہے گی۔
0 COMMENTS